منگل، 9 ستمبر، 2008

زرداری کی زر داری

انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص غیر متوقع طور پر کسی طاقتور منصب پر پہنچا ہے تو خوشامدیوں کے ٹولوں نے اس کیلیے ایک ایسا عوامی تاثر قائم کیا ہے جس کے سامنے اس کی ذاتی شخصیت کی حیثیت ایک بالشتیے سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پاکستان کا قریباً ہر سیاستدان اس کی زندہ (کئی صورتوں میں مردہ) مثال ہے۔
غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا، ایوب خان ہو یا بھٹو، ضیاء الحق ہو یا بینظیر، نواز شریف ہو یا مشرف، یہ بات سب پر صادق آتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک نئی کڑی ہمارا تازہ صدر آصف علی زرداری ہے۔ یہ وہ شخص جو بینظیر کو لے ڈوبا۔ اس شخص کا طمع اور لالچ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک عورت، جو جیسی بھی تھی کسی حد تک پاکستان کی نمائندہ تھی، ملکوں ملکوں در بدر ہوئی۔
جھوٹ، مکر اور وعدہ خلافی میں آصف علی زرداری کا کوئی ثانی نہیں۔ جتنے جھوٹ اس شخص نے پیپلز پارٹی کے اس دور میں بولے ہیں پاکستان کی گزشتہ تمام حکومتوں کی دروغ گوئیوں کو یکجا بھی کر دیا جائے تو زرداری کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اور وعدہ کے بارے میں
جناب کا فرمان ہے کہ "معاہدے حدیث یا قرآن نہیں"۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں مرد کو وعدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی محض زبان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ہاں یاد آیا یہ علاقے سندھ اور بلوچستان ہیں۔ زرداری صاحب انہیں علاقوں سے ہی تو ہیں۔ ان صاحب کی نظر میں مرد کی زبان کی کیا جب وعدے کی بھی کوئی اہمیت نہیں تو یا تو یہ مرد نہیں یا اپنے باپ کی اولاد نہیں۔
اگر زرداری کے پہلے بادشاہ گر اور پھر خود بادشاہ بننے کے بعد اس کے رویے اور انداز و اطوار پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انتہائی متمول شخص کسی انتہائی غربت کے مارے، عزت نفس سے عاری نوکر ہاتھ میں اپنے سب سے قیمتی محل کی چابی تھما کر ملک سے باہر چلا جائے اور جاتے جاتے محل کی تمام تر دیکھ بھال نوکر کے ذمہ لگا جائے۔ جب نوکر کو بلا روک ٹوک اس محل کی ہر چیز تک رسائی ہوتی ہے تو لوٹ مار کا ایک آسان موقع اس ہاتھ آ جاتا ہے۔ وہ عیش و عشرت اور عیاشی میں مالک کو بھی پیچھے چھوڑ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے ذمے لگائے گئے محل اس حد تک نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے تمام محرومیوں کا بدلہ اپنے مالک اور اس کی جائیداد سے لے رہا ہو۔
معلوم نہیں زرداری نے وہ کون سا غربت کا، شکست خوردہ وقت گزارا ہے کہ اس کی احساس محرومی نے اس کی عزت نفس کا گلا ہمیشہ کیلیے گھونٹ دیا ہے۔ زرداری نے بینظیر کے ادوار میں ملک میں لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں اس وقت ان تمام کو توڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ملکی خزانے سے عوام کے پیسے کو اس بے شرمی سے صاف کر رہا ہے کہ اس کو نہ دیکھنے کیلیے یا تو انسان کو اندھا ہونا پڑتا ہے یا ایک بے عقل جانور۔ یوسف رضا گیلانی دن میں اتنے سوٹ نہیں بدلتا جتنے زرداری پینترے اور بیان بدلتا ہے۔ اس کے چمچے سرکاری ٹیوی پر آ کر ہر ایک سے زبردستی زرداری کے قصیدے اگلوانے میں مصروف ہیں۔ اس کے چلنے، اس کے اٹھنے، اس کے بیٹھنے، اس کے کھانے، اس کے پینے، اس کے ہگنے، اس کے موتنے کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ بد قسمتی سے صوبۂ سندھ میں رائج ہندوانہ رسوم پر زرداری کے عمل درآمد کو اس کی روایت پسندی کہہ کر اس کو سنت زرداروی بنانے کی کوشش کی جا رہی۔ زرداری نے اپنے ارد گرد اس قدر خوشامدی اکٹھے کر لیے ہیں کہ وہ خوشامدیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہی دلدل زرداری کو ڈبو کر مار دے گی۔

ہفتہ، 9 اگست، 2008

منافق اور کافر

تو حضرت خبر یہ ہے کہ ناموس رسالت پر اٹھا ہوا ایک اور وار اس دفعہ ایک غیر مسلم نے روکا اس پر بھی وہ شرمندہ شرمندہ پشیماں پشیماں نظر آ رہی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شیری جونز نامی ایک موصوفہ نے جنس اور تعدی سے بھر پور ایک ناول لکھ مارا ہے جس کا نام رکھا گیا ہے "جیول آف مدینہ" یعنی مدینہ کا زیور، اور اس کا موضوع ہے حضرت عائشہ۔ جی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آخری زوجہ محترمہ۔ اس ناول کو 12 اگست کو عوام کیلیے دستیاب ہونا تھا۔ مصنفہ کا دعوی ہے کی یہ ایک تاریخی ناول ہے جو "طویل تحقیق" پر مبنی ہے۔ اس دعوی کی تصدیق کیلیے اشاعتی ادارہ رینڈم ہاؤس نے ٹیکسس یونیورسٹی، آسٹن میں مشرق وسطی کی ماہر ڈینیس سپیلبرگ سے رابطہ کیا تو انہوں نہ صرف اس ناول کو تاریخی طور پر غلط قرار دیا بلکہ اسے "بدصورت"، "بیوقوفانہ" اور "ہلکی فحش نگاری" بھی قرار دیا۔ نتیجۃ اس کی اشاعت منسوخ ہو گئی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ مصنفہ اس ناول کا دوسرا حصہ بھی مکمل کر چکی ہے۔
یہ تو تھی کہانی ایک غیر مسلم کی جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف چلا ہوا گستاخی کا ایک اور تیر روک دیا۔ لیکن اس تیر کے رکنے پر جو سب سے زیادہ حیراں و غم زدہ ہے وہ ایک نام نہاد مسلمان ہے جس کا نام ہے اسرٰی نعمانی۔ خاتون کا تعلق بھارت سے ہے اور امریکی شہریت کی حامل اور وہیں مقیم ہیں۔ مشاغل میں دینی اصلاحات کے نام پر اسلام کی توہین کرنا اور اس کام میں مشغول غیر مسلموں کی امداد و دفاع کرنا شامل ہیں۔ سلمان رشدی ملعون کی دلدادہ ہیں اور شیطانی آیات کیلیے دل کشادہ رکھتی ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نماز کی امامت ایک خاتون کو سونپ کر اسلامی اصولوں کی من پسند تحریف کی روایت کو ایک نئی جہت دینا ہے۔ اور ہاں مولانا شبلی نعمانی کو اپنے آبا میں سے بتاتی ہیں۔
غالباً یہ کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ اسلام کے دو بڑے ٹھیکیدار گروہ طالبان اور القاعدہ کس طرح دشمانان اسلام کیلیے معقول وجوہات پیدا کرتے رہتے ہیں کہ توہین اسلام کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہیں۔ یہ دونوں گروہ، جو کہ امریکہ کی ناجائز اولادیں ہیں، اپنے روز اول سے ہی مسلمانوں کیلیے کافی متنوع قسم کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے فتنہ و فساد کو جہاد اور فرقہ بندی کو اسلام کے دفاع کا نام دے رکھا ہے۔ انہی گروہوں کی حرکات کا یہ ثمر ہے کہ غالباً صلیبی جنگوں کے بعد پہلی دفعہ مغرب کو اسلام دشمنی کے عملی اظہار کا اس قدر موقع ملا ہے۔ صلیبی جنگوں میں وجہ وہ لوگ تھے جو ہمارے اعلانیہ دشمن تھے۔ اس دفعہ وجہ وہ لوگ ہیں جو خود کو دوست کہتے ہیں اور بد سے بد تر دشمن ہیں۔
حضرت عائشہ کی کم عمری کی شادی کو ہر دور میں توہین رسالت کیلیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن کامیابی اس لیے نہیں ہو سکی کہ گزشتہ ڈھائی تین صدیوں تک ایسی شادیاں، بشمول مغرب، تمام دنیا میں عام تھیں اور معاشرتی روایات کا حصہ تھیں۔ مغرب میں بچوں کیلیے بننے والے نئے قوانین اور القاعدہ و طالبان کی بدولت ان کی آنکھوں پر بندھی اسلام دشمنی کی پٹی کی وجہ سے اب ان زہر افشاں مصنفوں کیلیے بہت آساں ہو گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کی زوجہ محترمہ کی چادر ۔۔۔
جب بات تمام مسلمانوں کی ماں کی چادر تک آ جائے تو قاری کو خود سمجھدار ہونا چاہیے کہ منافق زیادہ برا کہ کافر۔

جمعہ، 8 اگست، 2008

مواخذہ اور مشرف

نواز شریف اور زرداری نے اعلان کیا ہے کہ مشرف صاحب کا مواخذہ کیا جائے گا۔ کب کیا جائے گا یہ معلوم نہیں۔ بہر حال اس کاروائی (یعنی نئے تاخیری حربوں) کا آغاز آئندہ پیر کے روز سے ہونے کا امکان ہے۔ بقول بی بی سی ججز کے بارے میں پوچھنے پر نواز شریف نے کہا ،"آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے"۔ یعنی زرداری صاحب مرغے کی دوسری ٹانگ کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ زرداری صاحب ہاکی کے ایک ایسے کھلاڑی کی طرح ہیں جس سے کسی نے پوچھا کہ وہ کس پوزیشن پر کھیلتے ہے تو جواب ملا، "آکورڈ پوزیشن پر"۔ زرداری صاحب کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ مرغے کی بائیں طرف کھڑے ہیں کہ انہیں اس کی صرف ایک ہی ٹانگ دکھائی دے۔ مرغا لاکھ رخ بدلتا رہے، یہ حضرت اس کی بائیں طرف ہی رہیں گے۔
اس سے پہلے کہ بات مرغے کی ٹانگ سے چرغے پر اتر آئے واپس مواخذے کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ تو صورت حال یہ کہ ججز بحال کیے بغیر مواخذے کی بات کرنا جان بوجھ کر آنکھیں بند کر کے تیر چلانے کے مترادف ہے۔ ججز کو ہٹایا صرف اس لیے گیا تھا کہ وہ مشرف کے اقتدار کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ اگر ججز کے ہٹایا نہ جاتا تو آج مشرف کا سیاہ سایہ ہم پر نہ ہوتا۔ اگر زرداری صاحب مشرف کے مواخذے میں سنجیدہ ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ججز کو بحال کر کے 2 نومبر کی عدلیہ کو واپس لایا جائے تا کہ مشرف کے خلاف آئینی مقدمات کی شفاف اور غیر جانبدارانہ سماعت دوبارہ شروع ہو سکے۔ بہت ممکن ہے کہ 2 نومبر والی عدالت مشرف کے صدارتی انتخاب کو غیر آئینی قرار دے دے جس کے بعد مشرف کا ٹنٹا خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اور اگر مشرف کے خلاف آئینی مقدمہ اور مواخذہ اکٹھا شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مشرف چلتا نہ بنے۔ لیکن اگر عدلیہ کو بحال نہ کیا گیا تو موجودہ کٹھ پتلے عدلیہ نہ صرف مواخذے کی راہ میں روڑے اٹکا سکتی ہے بلکہ اگر مواخذہ ناکام ہو گیا تو مشرف مزید طاقتور ہو جائے گا اور اس کے بعد ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ایک اور خبر شنید ہے کہ مشرف نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ اس نے کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔ اس کے اس جھوٹ پر جی چاہتا ہے یا تو مشرف کا سر توڑ دیا جائے یا خود دیواروں سے سر ٹکرا کر خود کشی کر لی جائے۔ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت 12 اکتوبر 1999ء سے آج تک اس شخص کی ایک ایک سانس غیر آئینی ہے۔ اس کا وجود غیر آئینی ہے۔ اس کی زندگی غیر آئینی ہے۔ اس غیر آئینی زندگی میں کیا ہوا اس کا کون سا کام آئینی ہو سکتا ہے۔ اس جلاد سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی شراب سے بھی وضو ہوا ہے؟