انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص غیر متوقع طور پر کسی طاقتور منصب پر پہنچا ہے تو خوشامدیوں کے ٹولوں نے اس کیلیے ایک ایسا عوامی تاثر قائم کیا ہے جس کے سامنے اس کی ذاتی شخصیت کی حیثیت ایک بالشتیے سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پاکستان کا قریباً ہر سیاستدان اس کی زندہ (کئی صورتوں میں مردہ) مثال ہے۔
غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا، ایوب خان ہو یا بھٹو، ضیاء الحق ہو یا بینظیر، نواز شریف ہو یا مشرف، یہ بات سب پر صادق آتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک نئی کڑی ہمارا تازہ صدر آصف علی زرداری ہے۔ یہ وہ شخص جو بینظیر کو لے ڈوبا۔ اس شخص کا طمع اور لالچ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک عورت، جو جیسی بھی تھی کسی حد تک پاکستان کی نمائندہ تھی، ملکوں ملکوں در بدر ہوئی۔
جھوٹ، مکر اور وعدہ خلافی میں آصف علی زرداری کا کوئی ثانی نہیں۔ جتنے جھوٹ اس شخص نے پیپلز پارٹی کے اس دور میں بولے ہیں پاکستان کی گزشتہ تمام حکومتوں کی دروغ گوئیوں کو یکجا بھی کر دیا جائے تو زرداری کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اور وعدہ کے بارے میں جناب کا فرمان ہے کہ "معاہدے حدیث یا قرآن نہیں"۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں مرد کو وعدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی محض زبان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ہاں یاد آیا یہ علاقے سندھ اور بلوچستان ہیں۔ زرداری صاحب انہیں علاقوں سے ہی تو ہیں۔ ان صاحب کی نظر میں مرد کی زبان کی کیا جب وعدے کی بھی کوئی اہمیت نہیں تو یا تو یہ مرد نہیں یا اپنے باپ کی اولاد نہیں۔
اگر زرداری کے پہلے بادشاہ گر اور پھر خود بادشاہ بننے کے بعد اس کے رویے اور انداز و اطوار پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انتہائی متمول شخص کسی انتہائی غربت کے مارے، عزت نفس سے عاری نوکر ہاتھ میں اپنے سب سے قیمتی محل کی چابی تھما کر ملک سے باہر چلا جائے اور جاتے جاتے محل کی تمام تر دیکھ بھال نوکر کے ذمہ لگا جائے۔ جب نوکر کو بلا روک ٹوک اس محل کی ہر چیز تک رسائی ہوتی ہے تو لوٹ مار کا ایک آسان موقع اس ہاتھ آ جاتا ہے۔ وہ عیش و عشرت اور عیاشی میں مالک کو بھی پیچھے چھوڑ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے ذمے لگائے گئے محل اس حد تک نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے تمام محرومیوں کا بدلہ اپنے مالک اور اس کی جائیداد سے لے رہا ہو۔
معلوم نہیں زرداری نے وہ کون سا غربت کا، شکست خوردہ وقت گزارا ہے کہ اس کی احساس محرومی نے اس کی عزت نفس کا گلا ہمیشہ کیلیے گھونٹ دیا ہے۔ زرداری نے بینظیر کے ادوار میں ملک میں لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں اس وقت ان تمام کو توڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ملکی خزانے سے عوام کے پیسے کو اس بے شرمی سے صاف کر رہا ہے کہ اس کو نہ دیکھنے کیلیے یا تو انسان کو اندھا ہونا پڑتا ہے یا ایک بے عقل جانور۔ یوسف رضا گیلانی دن میں اتنے سوٹ نہیں بدلتا جتنے زرداری پینترے اور بیان بدلتا ہے۔ اس کے چمچے سرکاری ٹیوی پر آ کر ہر ایک سے زبردستی زرداری کے قصیدے اگلوانے میں مصروف ہیں۔ اس کے چلنے، اس کے اٹھنے، اس کے بیٹھنے، اس کے کھانے، اس کے پینے، اس کے ہگنے، اس کے موتنے کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ بد قسمتی سے صوبۂ سندھ میں رائج ہندوانہ رسوم پر زرداری کے عمل درآمد کو اس کی روایت پسندی کہہ کر اس کو سنت زرداروی بنانے کی کوشش کی جا رہی۔ زرداری نے اپنے ارد گرد اس قدر خوشامدی اکٹھے کر لیے ہیں کہ وہ خوشامدیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہی دلدل زرداری کو ڈبو کر مار دے گی۔
غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا، ایوب خان ہو یا بھٹو، ضیاء الحق ہو یا بینظیر، نواز شریف ہو یا مشرف، یہ بات سب پر صادق آتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک نئی کڑی ہمارا تازہ صدر آصف علی زرداری ہے۔ یہ وہ شخص جو بینظیر کو لے ڈوبا۔ اس شخص کا طمع اور لالچ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک عورت، جو جیسی بھی تھی کسی حد تک پاکستان کی نمائندہ تھی، ملکوں ملکوں در بدر ہوئی۔
جھوٹ، مکر اور وعدہ خلافی میں آصف علی زرداری کا کوئی ثانی نہیں۔ جتنے جھوٹ اس شخص نے پیپلز پارٹی کے اس دور میں بولے ہیں پاکستان کی گزشتہ تمام حکومتوں کی دروغ گوئیوں کو یکجا بھی کر دیا جائے تو زرداری کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اور وعدہ کے بارے میں جناب کا فرمان ہے کہ "معاہدے حدیث یا قرآن نہیں"۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں مرد کو وعدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی محض زبان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ہاں یاد آیا یہ علاقے سندھ اور بلوچستان ہیں۔ زرداری صاحب انہیں علاقوں سے ہی تو ہیں۔ ان صاحب کی نظر میں مرد کی زبان کی کیا جب وعدے کی بھی کوئی اہمیت نہیں تو یا تو یہ مرد نہیں یا اپنے باپ کی اولاد نہیں۔
اگر زرداری کے پہلے بادشاہ گر اور پھر خود بادشاہ بننے کے بعد اس کے رویے اور انداز و اطوار پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انتہائی متمول شخص کسی انتہائی غربت کے مارے، عزت نفس سے عاری نوکر ہاتھ میں اپنے سب سے قیمتی محل کی چابی تھما کر ملک سے باہر چلا جائے اور جاتے جاتے محل کی تمام تر دیکھ بھال نوکر کے ذمہ لگا جائے۔ جب نوکر کو بلا روک ٹوک اس محل کی ہر چیز تک رسائی ہوتی ہے تو لوٹ مار کا ایک آسان موقع اس ہاتھ آ جاتا ہے۔ وہ عیش و عشرت اور عیاشی میں مالک کو بھی پیچھے چھوڑ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے ذمے لگائے گئے محل اس حد تک نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے تمام محرومیوں کا بدلہ اپنے مالک اور اس کی جائیداد سے لے رہا ہو۔
معلوم نہیں زرداری نے وہ کون سا غربت کا، شکست خوردہ وقت گزارا ہے کہ اس کی احساس محرومی نے اس کی عزت نفس کا گلا ہمیشہ کیلیے گھونٹ دیا ہے۔ زرداری نے بینظیر کے ادوار میں ملک میں لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں اس وقت ان تمام کو توڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ملکی خزانے سے عوام کے پیسے کو اس بے شرمی سے صاف کر رہا ہے کہ اس کو نہ دیکھنے کیلیے یا تو انسان کو اندھا ہونا پڑتا ہے یا ایک بے عقل جانور۔ یوسف رضا گیلانی دن میں اتنے سوٹ نہیں بدلتا جتنے زرداری پینترے اور بیان بدلتا ہے۔ اس کے چمچے سرکاری ٹیوی پر آ کر ہر ایک سے زبردستی زرداری کے قصیدے اگلوانے میں مصروف ہیں۔ اس کے چلنے، اس کے اٹھنے، اس کے بیٹھنے، اس کے کھانے، اس کے پینے، اس کے ہگنے، اس کے موتنے کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ بد قسمتی سے صوبۂ سندھ میں رائج ہندوانہ رسوم پر زرداری کے عمل درآمد کو اس کی روایت پسندی کہہ کر اس کو سنت زرداروی بنانے کی کوشش کی جا رہی۔ زرداری نے اپنے ارد گرد اس قدر خوشامدی اکٹھے کر لیے ہیں کہ وہ خوشامدیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہی دلدل زرداری کو ڈبو کر مار دے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں