جمعرات، 25 جولائی، 2019

عورتوں کی گانڈ بڑی کیوں ہوتی ہے؟

عورتوں کی گانڈ بڑی کیوں ہوتی ہے؟
مجھے یہ بلاگ لکھنے کا خیال حال ہی میں یوٹیوب پر خواتین کے جسم کے بارے ایک انتہائی بیہودہ، توہین آمیز اور تواہم پرستی سے بھرپور اردو زبان میں ایک  ویڈیو دیکھنے کے بعد آیا۔ پاکستان ایک قدامت پسند معاشرہ ہے جس کو مذہبی کہنا سراسر غلط ہو گا۔ پاکستان میں دین اسلام ایک پردہ ہے جس کی آڑ میں صدیوں پرانی قدامت پسندی اور تواہم پرستی کو تقویت دی جاتی ہے۔ اس کا اعجاز یہ ہے کہ شادی شدہ افراد بھی انسانی جنسیات سے مکمل طور پر لابلد ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی عورتوں کی گانڈ کی۔ اور لاکھ روپے کا سوال یہ ہے کہ یہ مردوں کی نسبت اتنی بڑی کیوں ہوتی ہے؟ سب سے پہلے تو ہم اپنی املا کی اصلاح کریں گے۔ گانڈ ایک بازاری اور انتہائی بھونڈا لفظ ہے جو انسان کے پیچھے موجود دو بیضوی گولائیوں کیلیے فحش گوئی کی محافل میں مستعمل ہے۔ ان گولائیوں کو چوتڑ، پٹھ، ٹہوئی جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس جسمانی حصے کیلیے بٹ، بٹاکس، بم، باٹم، ایس، آرس، ہائینی، کیسٹر، ڈیریئر جیسے الفاظ مستعمل ہیں۔ ہم یہاں پر اس کیلیے کسی قدر تمیز دار الفاظ سُرین اور دُبُر استعمال کریں گے۔
سرین ایک قدرتی کُشن ہے جو بیٹھنے میں مدد دیتا ہے اور کولہے کی ہڈیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ سرین کے پٹھے جسم کے سب سے بڑے پٹھوں میں شامل ہوتے ہیں۔
عورتوں کی گانڈ یا سرین کے بڑے ہونے کی تین بڑی وجوہات ہیں:
1.    عورتوں کا عورت ہونا
2.    خاندانی اثرات یا جینیات
3.    خوراک
عورتوں کا عورت ہونا
پیدائش کے وقت لڑکوں اور لڑکیوں کی سرین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر غور کیا جائے تو سوائے عضو تناسل (فحش زبان میں لن) اور اندام نہانی (فحش زبان میں پھدی) نومولود بچوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بعد میں والدین دونوں میں جنسی فرق کو لباس اور بالوں سےظاہر کرتے ہیں۔
دورانِ بلوغت لڑکوں میں بالوں کا خاطرخواہ اضافہ ہو جاتا ہے، کچھ کی گردن میں آواز کی ڈبیا دکھائی دینے لگتی ہے اور آواز بدل جاتی ہے۔ لیکن بلوغت لڑکیوں میں جو جسمانی تبدیلیاں لاتی ہے وہ ان کو بسا اوقات یکسر بدل کر رکھ دیتی ہے۔
دورانِ بلوغت لڑکوں کی طرح لڑکیوں میں بھی جسم کے مختلف حصوں پر بالوں کا اضافہ ہوتا ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں۔ لڑکیوں میں دو تبدیلیاں بہت تیزی سے واضح ہوتی ہیں۔ پستانوں کا تشکیل پانا اور سرین کا پھیلنا۔ روزِ ازل سے ان دونوں چیزوں کو لڑکی کی بلوغت کی نشانی گردانا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں بعض لوگ اس کو اشارۃً آگے پیچھے وزن بھی کہتے ہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں یقیناً وزن رکھتی ہیں۔ غیر معمولی بڑے پستانوں سے کمر پر دباؤ اور درد کی شکایت عام ہے۔ مغربی ممالک میں، جہاں طب نے حالیہ صدیوں میں خاطر خواہ ترقی کی ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ جسمانی کھیلوں میں حصہ لینے والی کچھ لڑکیوں کو دورانِ بلوغت جسم کی تبدیلیوں کی وجہ سےتوازن میں ہونے والی تبدیلی کھیلوں سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
عورتوں کو اللہ تعالٰی نے ماں کا رتبہ دیا ہے لیکن اس رتبے تک پہنچنے کیلیے انہیں بچے کی پیدائش جیسے انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کو کسی قدر آسان بنانے کیلیے عورتوں کو مردوں سے بڑی سرین عطا کی گئی ہے اور اس کو مرد کیلیے کشش کی وجہ بھی بنا دیا گیا ہے۔
عورتوں کے کولہوں کی ہڈیوں میں فاصلہ مردوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتاہے جس کے نتیجے میں کولہوں اور ان کے گرد پائی جانے والی دیگر ہڈیوں کے بیچ نیچے کی طرف جانے والا راستہ زیادہ کھلا ہوتا ہے جو بچے کی پیدائش کے عمل میں آسانی پیدا کرتا ہے اور دورانِ پیدائش بچے کو نقصان سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ کولہوں کی ہڈیوں میں فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کی سرین زیادہ واضح ہوتی ہے اور نسبتاً بڑی نظر آتی ہے۔ ماضی کی مغربی ثقافت میں بڑی سرین والی خواتین کو بچے پیدا کرنے کیلیے زیادہ مناسب سمجھاجاتا تھا جس وجہ سے بعض خواتین ایسے کپڑے پہنتی تھیں جس سے ان کی سرین اور بھی بڑی نظر آئے۔ اس ثقافت کے اثرات آج بھی چست پینٹوں اور پائجاموں کی صورت میں نظر آتے ہے۔


اوپر دی گئی کولہے کی ہڈیوں کی تصویر میں عورت اور مرد کی ہڈیوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اونچی ایڑی والا جوتا پہننے سے ٹانگوں اور رانوں کے پٹھوں پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے چوتڑوں کی گولائی زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ محترم قاری، اگر آپ ایک شادی شدہ مرد ہیں تو اپنی بیگم کی مدد سے تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ اگر آپ خاتون ہیں تو آپ اس بارے میں مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔ ورنہ گھر میں ایک قد آدم آئینہ رکھ لیں۔
خاندانی اثرات یا جینیات
انسان کے جسم کے خلیوں میں ڈی این اے نامی ایک تیزاب پایا جاتا ہے جو آپ کے خلیوں کے حقوق و فرائض وضع کرتا ہے۔ اس تیزاب کا ایک حصہ جین کہلاتا ہے۔ انسانی جسم میں 20 سے 25 ہزار جین ہوتے ہیں جو آپ کی شکل، بال، قد، آنکھوں کا رنگ، چلنے کا انداز، مزاج، زہانت، شخصیت، غرض ہر چیز کی تشکیل کرتے ہیں۔ جینز ایک قسم کا ہدایت نامہ ہے جس کی روشنی میں انسانی بدن تیار ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ یہ جین آپ کو اپنے والدین سے ملتے ہیں اور انہی کی وجہ سے آپ کی شخصیت کے کئی رخ اپنے ماں باپ، دادادادی، نانا نانی وغیرہ سے ملتے ہیں۔ اس چیز کو خاندانی اثرات بھی کہتے ہیں۔
بعض خاندانوں میں، حتٰی کہ بعض وسیع علاقوں کے لوگوں میں ایسے جینز پائے جاتے ہی جن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی سرین بڑی ہوتی ہے اور عورتوں میں اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
خوراک
جب انسان اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک کھائے تو جسم فالتو خوراک کو چربی کی شکل میں مشکل وقت کیلیے محفوظ کر لیتا ہے۔ اور اگر یہ چربی بڑھتی جائے تو موٹاپے کی صورت میں نظر آنے لگتی ہے۔
مردوں اور عورتوں کے اجسام چربی کو محفوظ کرنے میں مختلف ہیں۔ جب مردوں میں چربی بڑھتی ہے تو اس کو پیٹ پر محفوظ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے توند نکل آتی ہے۔
لیکن جب عورتوں میں چربی بڑھنے لگتی ہے تو اسے سرین اور رانوں میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی سا وزن بڑھنے سے بھی عورتوں کی سرین باقی جسم سے پہلے موٹی ہونے لگتی ہے۔
ایک حد سے زیادہ بڑی اور موٹی سرین موٹاپے کی نشانی ہے جو کہ بذات خود ایک بیماری ہے۔ لیکن اگر ایک عورت کا جسم فربہ نہ ہو اور سرین متناسب طرح سے بڑی اور موٹی ہو تو مردوں کیلیے انتہائی جازبِ نظر ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ مرد جبلی طور پر ایسی سرین کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ اس خاتون کے بچے پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ایسی سرین اس خاتون کی اچھی صحت اور اچھی خوراک کی نشانی ہے جو آخر کار اس خاتون کے ہونے والے بچے کی صحت پر اچھے اثرات چھوڑیں گی۔
دبری جماع
میاں بیوی کے درمیان دبر کا جماع یا سرین کا جماع (فحش زبان میں گانڈ مارنا/مروانا ) تقریباً تمام معاشروں اور ادیان میں ایک انتہائی متنازعہ موزع ہے۔ اس سے قطع نظر، طبی طور پر یہ ایک انتہائی خطرناک فعل ہے۔
ایسے میاں بیوی جو جنسی بیماریوں سے پاک ہوں اور ایک دوسرے سے انتہائی پابندی کے ساتھ وفا دار رہیں ایک دوسرے کو جنسی بیماریاں منتقل نہیں کر سکتے لیکن بغیر مناسب احتیاط کے دبری جماع دونوں افراد کیلیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف مقعد (پاخانے کا سوراخ)، جو کہ انتہائی حساس جسمانی حصہ ہے، میں زخم آ سکتے ہیں بلکہ پاخانے میں موجود جراثیم مرد کے عضو تناسل کیلیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتے ہے۔ کثرت سے دبری جماع مقعد کے پٹھوں کو کمزور کر سکتا ہے جس سے پاخانہ بے قابو ہونے کی بیماری ہو سکتی ہے۔ مقعد کے پٹھے اپنی سختی سے مرد کے عضو تناسل میں شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
لیکن یہ یاد رکھیے کہ سرین کے بڑے یا موٹے ہونے کا دبری جماع سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ کی اہلیہ اپنی سرین میں وزن بڑھا رہی ہیں اور آپ نے ان سے کبھی دبری جماع نہیں کیا تو اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہ کسی اور مرد سے یہ فعل کر رہی ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے آپ اپنی فرِج میں سے جسم کو فربہ کرنے والی خوراکوں کو دور کریں اور کسی مناسب طبیب یا ماہر غذائیات سے رابطہ کریں۔
اور ہاں، خود بھی ورزش کریں اور اپنی اہلیہ کو بھی ورزش کی طرف مائل کریں۔ ورزش جسم کو خوبصورت اور چست بناتی ہے اور بالواسطہ طور پر ازدواجی محبت میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔

بدھ، 7 جنوری، 2009

شرعی سزا

طالبان نے اعلان کیا ہے کہ سکول جانے والی بچیوں کو "شرعی سزا" دی جائے گی۔ حصول علم پر قرآن و حدیث کی شرع میں کون سی سزا ہے؟

منگل، 9 ستمبر، 2008

زرداری کی زر داری

انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص غیر متوقع طور پر کسی طاقتور منصب پر پہنچا ہے تو خوشامدیوں کے ٹولوں نے اس کیلیے ایک ایسا عوامی تاثر قائم کیا ہے جس کے سامنے اس کی ذاتی شخصیت کی حیثیت ایک بالشتیے سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پاکستان کا قریباً ہر سیاستدان اس کی زندہ (کئی صورتوں میں مردہ) مثال ہے۔
غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا، ایوب خان ہو یا بھٹو، ضیاء الحق ہو یا بینظیر، نواز شریف ہو یا مشرف، یہ بات سب پر صادق آتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک نئی کڑی ہمارا تازہ صدر آصف علی زرداری ہے۔ یہ وہ شخص جو بینظیر کو لے ڈوبا۔ اس شخص کا طمع اور لالچ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک عورت، جو جیسی بھی تھی کسی حد تک پاکستان کی نمائندہ تھی، ملکوں ملکوں در بدر ہوئی۔
جھوٹ، مکر اور وعدہ خلافی میں آصف علی زرداری کا کوئی ثانی نہیں۔ جتنے جھوٹ اس شخص نے پیپلز پارٹی کے اس دور میں بولے ہیں پاکستان کی گزشتہ تمام حکومتوں کی دروغ گوئیوں کو یکجا بھی کر دیا جائے تو زرداری کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اور وعدہ کے بارے میں
جناب کا فرمان ہے کہ "معاہدے حدیث یا قرآن نہیں"۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں مرد کو وعدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی محض زبان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ہاں یاد آیا یہ علاقے سندھ اور بلوچستان ہیں۔ زرداری صاحب انہیں علاقوں سے ہی تو ہیں۔ ان صاحب کی نظر میں مرد کی زبان کی کیا جب وعدے کی بھی کوئی اہمیت نہیں تو یا تو یہ مرد نہیں یا اپنے باپ کی اولاد نہیں۔
اگر زرداری کے پہلے بادشاہ گر اور پھر خود بادشاہ بننے کے بعد اس کے رویے اور انداز و اطوار پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انتہائی متمول شخص کسی انتہائی غربت کے مارے، عزت نفس سے عاری نوکر ہاتھ میں اپنے سب سے قیمتی محل کی چابی تھما کر ملک سے باہر چلا جائے اور جاتے جاتے محل کی تمام تر دیکھ بھال نوکر کے ذمہ لگا جائے۔ جب نوکر کو بلا روک ٹوک اس محل کی ہر چیز تک رسائی ہوتی ہے تو لوٹ مار کا ایک آسان موقع اس ہاتھ آ جاتا ہے۔ وہ عیش و عشرت اور عیاشی میں مالک کو بھی پیچھے چھوڑ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے ذمے لگائے گئے محل اس حد تک نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے تمام محرومیوں کا بدلہ اپنے مالک اور اس کی جائیداد سے لے رہا ہو۔
معلوم نہیں زرداری نے وہ کون سا غربت کا، شکست خوردہ وقت گزارا ہے کہ اس کی احساس محرومی نے اس کی عزت نفس کا گلا ہمیشہ کیلیے گھونٹ دیا ہے۔ زرداری نے بینظیر کے ادوار میں ملک میں لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں اس وقت ان تمام کو توڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ملکی خزانے سے عوام کے پیسے کو اس بے شرمی سے صاف کر رہا ہے کہ اس کو نہ دیکھنے کیلیے یا تو انسان کو اندھا ہونا پڑتا ہے یا ایک بے عقل جانور۔ یوسف رضا گیلانی دن میں اتنے سوٹ نہیں بدلتا جتنے زرداری پینترے اور بیان بدلتا ہے۔ اس کے چمچے سرکاری ٹیوی پر آ کر ہر ایک سے زبردستی زرداری کے قصیدے اگلوانے میں مصروف ہیں۔ اس کے چلنے، اس کے اٹھنے، اس کے بیٹھنے، اس کے کھانے، اس کے پینے، اس کے ہگنے، اس کے موتنے کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ بد قسمتی سے صوبۂ سندھ میں رائج ہندوانہ رسوم پر زرداری کے عمل درآمد کو اس کی روایت پسندی کہہ کر اس کو سنت زرداروی بنانے کی کوشش کی جا رہی۔ زرداری نے اپنے ارد گرد اس قدر خوشامدی اکٹھے کر لیے ہیں کہ وہ خوشامدیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہی دلدل زرداری کو ڈبو کر مار دے گی۔

ہفتہ، 9 اگست، 2008

منافق اور کافر

تو حضرت خبر یہ ہے کہ ناموس رسالت پر اٹھا ہوا ایک اور وار اس دفعہ ایک غیر مسلم نے روکا اس پر بھی وہ شرمندہ شرمندہ پشیماں پشیماں نظر آ رہی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شیری جونز نامی ایک موصوفہ نے جنس اور تعدی سے بھر پور ایک ناول لکھ مارا ہے جس کا نام رکھا گیا ہے "جیول آف مدینہ" یعنی مدینہ کا زیور، اور اس کا موضوع ہے حضرت عائشہ۔ جی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آخری زوجہ محترمہ۔ اس ناول کو 12 اگست کو عوام کیلیے دستیاب ہونا تھا۔ مصنفہ کا دعوی ہے کی یہ ایک تاریخی ناول ہے جو "طویل تحقیق" پر مبنی ہے۔ اس دعوی کی تصدیق کیلیے اشاعتی ادارہ رینڈم ہاؤس نے ٹیکسس یونیورسٹی، آسٹن میں مشرق وسطی کی ماہر ڈینیس سپیلبرگ سے رابطہ کیا تو انہوں نہ صرف اس ناول کو تاریخی طور پر غلط قرار دیا بلکہ اسے "بدصورت"، "بیوقوفانہ" اور "ہلکی فحش نگاری" بھی قرار دیا۔ نتیجۃ اس کی اشاعت منسوخ ہو گئی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ مصنفہ اس ناول کا دوسرا حصہ بھی مکمل کر چکی ہے۔
یہ تو تھی کہانی ایک غیر مسلم کی جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف چلا ہوا گستاخی کا ایک اور تیر روک دیا۔ لیکن اس تیر کے رکنے پر جو سب سے زیادہ حیراں و غم زدہ ہے وہ ایک نام نہاد مسلمان ہے جس کا نام ہے اسرٰی نعمانی۔ خاتون کا تعلق بھارت سے ہے اور امریکی شہریت کی حامل اور وہیں مقیم ہیں۔ مشاغل میں دینی اصلاحات کے نام پر اسلام کی توہین کرنا اور اس کام میں مشغول غیر مسلموں کی امداد و دفاع کرنا شامل ہیں۔ سلمان رشدی ملعون کی دلدادہ ہیں اور شیطانی آیات کیلیے دل کشادہ رکھتی ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نماز کی امامت ایک خاتون کو سونپ کر اسلامی اصولوں کی من پسند تحریف کی روایت کو ایک نئی جہت دینا ہے۔ اور ہاں مولانا شبلی نعمانی کو اپنے آبا میں سے بتاتی ہیں۔
غالباً یہ کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ اسلام کے دو بڑے ٹھیکیدار گروہ طالبان اور القاعدہ کس طرح دشمانان اسلام کیلیے معقول وجوہات پیدا کرتے رہتے ہیں کہ توہین اسلام کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہیں۔ یہ دونوں گروہ، جو کہ امریکہ کی ناجائز اولادیں ہیں، اپنے روز اول سے ہی مسلمانوں کیلیے کافی متنوع قسم کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے فتنہ و فساد کو جہاد اور فرقہ بندی کو اسلام کے دفاع کا نام دے رکھا ہے۔ انہی گروہوں کی حرکات کا یہ ثمر ہے کہ غالباً صلیبی جنگوں کے بعد پہلی دفعہ مغرب کو اسلام دشمنی کے عملی اظہار کا اس قدر موقع ملا ہے۔ صلیبی جنگوں میں وجہ وہ لوگ تھے جو ہمارے اعلانیہ دشمن تھے۔ اس دفعہ وجہ وہ لوگ ہیں جو خود کو دوست کہتے ہیں اور بد سے بد تر دشمن ہیں۔
حضرت عائشہ کی کم عمری کی شادی کو ہر دور میں توہین رسالت کیلیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن کامیابی اس لیے نہیں ہو سکی کہ گزشتہ ڈھائی تین صدیوں تک ایسی شادیاں، بشمول مغرب، تمام دنیا میں عام تھیں اور معاشرتی روایات کا حصہ تھیں۔ مغرب میں بچوں کیلیے بننے والے نئے قوانین اور القاعدہ و طالبان کی بدولت ان کی آنکھوں پر بندھی اسلام دشمنی کی پٹی کی وجہ سے اب ان زہر افشاں مصنفوں کیلیے بہت آساں ہو گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کی زوجہ محترمہ کی چادر ۔۔۔
جب بات تمام مسلمانوں کی ماں کی چادر تک آ جائے تو قاری کو خود سمجھدار ہونا چاہیے کہ منافق زیادہ برا کہ کافر۔

جمعہ، 8 اگست، 2008

مواخذہ اور مشرف

نواز شریف اور زرداری نے اعلان کیا ہے کہ مشرف صاحب کا مواخذہ کیا جائے گا۔ کب کیا جائے گا یہ معلوم نہیں۔ بہر حال اس کاروائی (یعنی نئے تاخیری حربوں) کا آغاز آئندہ پیر کے روز سے ہونے کا امکان ہے۔ بقول بی بی سی ججز کے بارے میں پوچھنے پر نواز شریف نے کہا ،"آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے"۔ یعنی زرداری صاحب مرغے کی دوسری ٹانگ کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ زرداری صاحب ہاکی کے ایک ایسے کھلاڑی کی طرح ہیں جس سے کسی نے پوچھا کہ وہ کس پوزیشن پر کھیلتے ہے تو جواب ملا، "آکورڈ پوزیشن پر"۔ زرداری صاحب کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ مرغے کی بائیں طرف کھڑے ہیں کہ انہیں اس کی صرف ایک ہی ٹانگ دکھائی دے۔ مرغا لاکھ رخ بدلتا رہے، یہ حضرت اس کی بائیں طرف ہی رہیں گے۔
اس سے پہلے کہ بات مرغے کی ٹانگ سے چرغے پر اتر آئے واپس مواخذے کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ تو صورت حال یہ کہ ججز بحال کیے بغیر مواخذے کی بات کرنا جان بوجھ کر آنکھیں بند کر کے تیر چلانے کے مترادف ہے۔ ججز کو ہٹایا صرف اس لیے گیا تھا کہ وہ مشرف کے اقتدار کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ اگر ججز کے ہٹایا نہ جاتا تو آج مشرف کا سیاہ سایہ ہم پر نہ ہوتا۔ اگر زرداری صاحب مشرف کے مواخذے میں سنجیدہ ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ججز کو بحال کر کے 2 نومبر کی عدلیہ کو واپس لایا جائے تا کہ مشرف کے خلاف آئینی مقدمات کی شفاف اور غیر جانبدارانہ سماعت دوبارہ شروع ہو سکے۔ بہت ممکن ہے کہ 2 نومبر والی عدالت مشرف کے صدارتی انتخاب کو غیر آئینی قرار دے دے جس کے بعد مشرف کا ٹنٹا خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اور اگر مشرف کے خلاف آئینی مقدمہ اور مواخذہ اکٹھا شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مشرف چلتا نہ بنے۔ لیکن اگر عدلیہ کو بحال نہ کیا گیا تو موجودہ کٹھ پتلے عدلیہ نہ صرف مواخذے کی راہ میں روڑے اٹکا سکتی ہے بلکہ اگر مواخذہ ناکام ہو گیا تو مشرف مزید طاقتور ہو جائے گا اور اس کے بعد ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ایک اور خبر شنید ہے کہ مشرف نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ اس نے کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔ اس کے اس جھوٹ پر جی چاہتا ہے یا تو مشرف کا سر توڑ دیا جائے یا خود دیواروں سے سر ٹکرا کر خود کشی کر لی جائے۔ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت 12 اکتوبر 1999ء سے آج تک اس شخص کی ایک ایک سانس غیر آئینی ہے۔ اس کا وجود غیر آئینی ہے۔ اس کی زندگی غیر آئینی ہے۔ اس غیر آئینی زندگی میں کیا ہوا اس کا کون سا کام آئینی ہو سکتا ہے۔ اس جلاد سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی شراب سے بھی وضو ہوا ہے؟