تو حضرت خبر یہ ہے کہ ناموس رسالت پر اٹھا ہوا ایک اور وار اس دفعہ ایک غیر مسلم نے روکا اس پر بھی وہ شرمندہ شرمندہ پشیماں پشیماں نظر آ رہی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شیری جونز نامی ایک موصوفہ نے جنس اور تعدی سے بھر پور ایک ناول لکھ مارا ہے جس کا نام رکھا گیا ہے "جیول آف مدینہ" یعنی مدینہ کا زیور، اور اس کا موضوع ہے حضرت عائشہ۔ جی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آخری زوجہ محترمہ۔ اس ناول کو 12 اگست کو عوام کیلیے دستیاب ہونا تھا۔ مصنفہ کا دعوی ہے کی یہ ایک تاریخی ناول ہے جو "طویل تحقیق" پر مبنی ہے۔ اس دعوی کی تصدیق کیلیے اشاعتی ادارہ رینڈم ہاؤس نے ٹیکسس یونیورسٹی، آسٹن میں مشرق وسطی کی ماہر ڈینیس سپیلبرگ سے رابطہ کیا تو انہوں نہ صرف اس ناول کو تاریخی طور پر غلط قرار دیا بلکہ اسے "بدصورت"، "بیوقوفانہ" اور "ہلکی فحش نگاری" بھی قرار دیا۔ نتیجۃ اس کی اشاعت منسوخ ہو گئی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ مصنفہ اس ناول کا دوسرا حصہ بھی مکمل کر چکی ہے۔
یہ تو تھی کہانی ایک غیر مسلم کی جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف چلا ہوا گستاخی کا ایک اور تیر روک دیا۔ لیکن اس تیر کے رکنے پر جو سب سے زیادہ حیراں و غم زدہ ہے وہ ایک نام نہاد مسلمان ہے جس کا نام ہے اسرٰی نعمانی۔ خاتون کا تعلق بھارت سے ہے اور امریکی شہریت کی حامل اور وہیں مقیم ہیں۔ مشاغل میں دینی اصلاحات کے نام پر اسلام کی توہین کرنا اور اس کام میں مشغول غیر مسلموں کی امداد و دفاع کرنا شامل ہیں۔ سلمان رشدی ملعون کی دلدادہ ہیں اور شیطانی آیات کیلیے دل کشادہ رکھتی ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نماز کی امامت ایک خاتون کو سونپ کر اسلامی اصولوں کی من پسند تحریف کی روایت کو ایک نئی جہت دینا ہے۔ اور ہاں مولانا شبلی نعمانی کو اپنے آبا میں سے بتاتی ہیں۔
غالباً یہ کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ اسلام کے دو بڑے ٹھیکیدار گروہ طالبان اور القاعدہ کس طرح دشمانان اسلام کیلیے معقول وجوہات پیدا کرتے رہتے ہیں کہ توہین اسلام کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہیں۔ یہ دونوں گروہ، جو کہ امریکہ کی ناجائز اولادیں ہیں، اپنے روز اول سے ہی مسلمانوں کیلیے کافی متنوع قسم کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے فتنہ و فساد کو جہاد اور فرقہ بندی کو اسلام کے دفاع کا نام دے رکھا ہے۔ انہی گروہوں کی حرکات کا یہ ثمر ہے کہ غالباً صلیبی جنگوں کے بعد پہلی دفعہ مغرب کو اسلام دشمنی کے عملی اظہار کا اس قدر موقع ملا ہے۔ صلیبی جنگوں میں وجہ وہ لوگ تھے جو ہمارے اعلانیہ دشمن تھے۔ اس دفعہ وجہ وہ لوگ ہیں جو خود کو دوست کہتے ہیں اور بد سے بد تر دشمن ہیں۔
حضرت عائشہ کی کم عمری کی شادی کو ہر دور میں توہین رسالت کیلیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن کامیابی اس لیے نہیں ہو سکی کہ گزشتہ ڈھائی تین صدیوں تک ایسی شادیاں، بشمول مغرب، تمام دنیا میں عام تھیں اور معاشرتی روایات کا حصہ تھیں۔ مغرب میں بچوں کیلیے بننے والے نئے قوانین اور القاعدہ و طالبان کی بدولت ان کی آنکھوں پر بندھی اسلام دشمنی کی پٹی کی وجہ سے اب ان زہر افشاں مصنفوں کیلیے بہت آساں ہو گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کی زوجہ محترمہ کی چادر ۔۔۔
جب بات تمام مسلمانوں کی ماں کی چادر تک آ جائے تو قاری کو خود سمجھدار ہونا چاہیے کہ منافق زیادہ برا کہ کافر۔
یہ تو تھی کہانی ایک غیر مسلم کی جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف چلا ہوا گستاخی کا ایک اور تیر روک دیا۔ لیکن اس تیر کے رکنے پر جو سب سے زیادہ حیراں و غم زدہ ہے وہ ایک نام نہاد مسلمان ہے جس کا نام ہے اسرٰی نعمانی۔ خاتون کا تعلق بھارت سے ہے اور امریکی شہریت کی حامل اور وہیں مقیم ہیں۔ مشاغل میں دینی اصلاحات کے نام پر اسلام کی توہین کرنا اور اس کام میں مشغول غیر مسلموں کی امداد و دفاع کرنا شامل ہیں۔ سلمان رشدی ملعون کی دلدادہ ہیں اور شیطانی آیات کیلیے دل کشادہ رکھتی ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نماز کی امامت ایک خاتون کو سونپ کر اسلامی اصولوں کی من پسند تحریف کی روایت کو ایک نئی جہت دینا ہے۔ اور ہاں مولانا شبلی نعمانی کو اپنے آبا میں سے بتاتی ہیں۔
غالباً یہ کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ اسلام کے دو بڑے ٹھیکیدار گروہ طالبان اور القاعدہ کس طرح دشمانان اسلام کیلیے معقول وجوہات پیدا کرتے رہتے ہیں کہ توہین اسلام کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہیں۔ یہ دونوں گروہ، جو کہ امریکہ کی ناجائز اولادیں ہیں، اپنے روز اول سے ہی مسلمانوں کیلیے کافی متنوع قسم کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے فتنہ و فساد کو جہاد اور فرقہ بندی کو اسلام کے دفاع کا نام دے رکھا ہے۔ انہی گروہوں کی حرکات کا یہ ثمر ہے کہ غالباً صلیبی جنگوں کے بعد پہلی دفعہ مغرب کو اسلام دشمنی کے عملی اظہار کا اس قدر موقع ملا ہے۔ صلیبی جنگوں میں وجہ وہ لوگ تھے جو ہمارے اعلانیہ دشمن تھے۔ اس دفعہ وجہ وہ لوگ ہیں جو خود کو دوست کہتے ہیں اور بد سے بد تر دشمن ہیں۔
حضرت عائشہ کی کم عمری کی شادی کو ہر دور میں توہین رسالت کیلیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن کامیابی اس لیے نہیں ہو سکی کہ گزشتہ ڈھائی تین صدیوں تک ایسی شادیاں، بشمول مغرب، تمام دنیا میں عام تھیں اور معاشرتی روایات کا حصہ تھیں۔ مغرب میں بچوں کیلیے بننے والے نئے قوانین اور القاعدہ و طالبان کی بدولت ان کی آنکھوں پر بندھی اسلام دشمنی کی پٹی کی وجہ سے اب ان زہر افشاں مصنفوں کیلیے بہت آساں ہو گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کی زوجہ محترمہ کی چادر ۔۔۔
جب بات تمام مسلمانوں کی ماں کی چادر تک آ جائے تو قاری کو خود سمجھدار ہونا چاہیے کہ منافق زیادہ برا کہ کافر۔