جمعرات، 25 جولائی، 2019

عورتوں کی گانڈ بڑی کیوں ہوتی ہے؟

عورتوں کی گانڈ بڑی کیوں ہوتی ہے؟
مجھے یہ بلاگ لکھنے کا خیال حال ہی میں یوٹیوب پر خواتین کے جسم کے بارے ایک انتہائی بیہودہ، توہین آمیز اور تواہم پرستی سے بھرپور اردو زبان میں ایک  ویڈیو دیکھنے کے بعد آیا۔ پاکستان ایک قدامت پسند معاشرہ ہے جس کو مذہبی کہنا سراسر غلط ہو گا۔ پاکستان میں دین اسلام ایک پردہ ہے جس کی آڑ میں صدیوں پرانی قدامت پسندی اور تواہم پرستی کو تقویت دی جاتی ہے۔ اس کا اعجاز یہ ہے کہ شادی شدہ افراد بھی انسانی جنسیات سے مکمل طور پر لابلد ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی عورتوں کی گانڈ کی۔ اور لاکھ روپے کا سوال یہ ہے کہ یہ مردوں کی نسبت اتنی بڑی کیوں ہوتی ہے؟ سب سے پہلے تو ہم اپنی املا کی اصلاح کریں گے۔ گانڈ ایک بازاری اور انتہائی بھونڈا لفظ ہے جو انسان کے پیچھے موجود دو بیضوی گولائیوں کیلیے فحش گوئی کی محافل میں مستعمل ہے۔ ان گولائیوں کو چوتڑ، پٹھ، ٹہوئی جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس جسمانی حصے کیلیے بٹ، بٹاکس، بم، باٹم، ایس، آرس، ہائینی، کیسٹر، ڈیریئر جیسے الفاظ مستعمل ہیں۔ ہم یہاں پر اس کیلیے کسی قدر تمیز دار الفاظ سُرین اور دُبُر استعمال کریں گے۔
سرین ایک قدرتی کُشن ہے جو بیٹھنے میں مدد دیتا ہے اور کولہے کی ہڈیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ سرین کے پٹھے جسم کے سب سے بڑے پٹھوں میں شامل ہوتے ہیں۔
عورتوں کی گانڈ یا سرین کے بڑے ہونے کی تین بڑی وجوہات ہیں:
1.    عورتوں کا عورت ہونا
2.    خاندانی اثرات یا جینیات
3.    خوراک
عورتوں کا عورت ہونا
پیدائش کے وقت لڑکوں اور لڑکیوں کی سرین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر غور کیا جائے تو سوائے عضو تناسل (فحش زبان میں لن) اور اندام نہانی (فحش زبان میں پھدی) نومولود بچوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بعد میں والدین دونوں میں جنسی فرق کو لباس اور بالوں سےظاہر کرتے ہیں۔
دورانِ بلوغت لڑکوں میں بالوں کا خاطرخواہ اضافہ ہو جاتا ہے، کچھ کی گردن میں آواز کی ڈبیا دکھائی دینے لگتی ہے اور آواز بدل جاتی ہے۔ لیکن بلوغت لڑکیوں میں جو جسمانی تبدیلیاں لاتی ہے وہ ان کو بسا اوقات یکسر بدل کر رکھ دیتی ہے۔
دورانِ بلوغت لڑکوں کی طرح لڑکیوں میں بھی جسم کے مختلف حصوں پر بالوں کا اضافہ ہوتا ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں۔ لڑکیوں میں دو تبدیلیاں بہت تیزی سے واضح ہوتی ہیں۔ پستانوں کا تشکیل پانا اور سرین کا پھیلنا۔ روزِ ازل سے ان دونوں چیزوں کو لڑکی کی بلوغت کی نشانی گردانا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں بعض لوگ اس کو اشارۃً آگے پیچھے وزن بھی کہتے ہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں یقیناً وزن رکھتی ہیں۔ غیر معمولی بڑے پستانوں سے کمر پر دباؤ اور درد کی شکایت عام ہے۔ مغربی ممالک میں، جہاں طب نے حالیہ صدیوں میں خاطر خواہ ترقی کی ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ جسمانی کھیلوں میں حصہ لینے والی کچھ لڑکیوں کو دورانِ بلوغت جسم کی تبدیلیوں کی وجہ سےتوازن میں ہونے والی تبدیلی کھیلوں سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
عورتوں کو اللہ تعالٰی نے ماں کا رتبہ دیا ہے لیکن اس رتبے تک پہنچنے کیلیے انہیں بچے کی پیدائش جیسے انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کو کسی قدر آسان بنانے کیلیے عورتوں کو مردوں سے بڑی سرین عطا کی گئی ہے اور اس کو مرد کیلیے کشش کی وجہ بھی بنا دیا گیا ہے۔
عورتوں کے کولہوں کی ہڈیوں میں فاصلہ مردوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتاہے جس کے نتیجے میں کولہوں اور ان کے گرد پائی جانے والی دیگر ہڈیوں کے بیچ نیچے کی طرف جانے والا راستہ زیادہ کھلا ہوتا ہے جو بچے کی پیدائش کے عمل میں آسانی پیدا کرتا ہے اور دورانِ پیدائش بچے کو نقصان سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ کولہوں کی ہڈیوں میں فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کی سرین زیادہ واضح ہوتی ہے اور نسبتاً بڑی نظر آتی ہے۔ ماضی کی مغربی ثقافت میں بڑی سرین والی خواتین کو بچے پیدا کرنے کیلیے زیادہ مناسب سمجھاجاتا تھا جس وجہ سے بعض خواتین ایسے کپڑے پہنتی تھیں جس سے ان کی سرین اور بھی بڑی نظر آئے۔ اس ثقافت کے اثرات آج بھی چست پینٹوں اور پائجاموں کی صورت میں نظر آتے ہے۔


اوپر دی گئی کولہے کی ہڈیوں کی تصویر میں عورت اور مرد کی ہڈیوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اونچی ایڑی والا جوتا پہننے سے ٹانگوں اور رانوں کے پٹھوں پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے چوتڑوں کی گولائی زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ محترم قاری، اگر آپ ایک شادی شدہ مرد ہیں تو اپنی بیگم کی مدد سے تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ اگر آپ خاتون ہیں تو آپ اس بارے میں مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔ ورنہ گھر میں ایک قد آدم آئینہ رکھ لیں۔
خاندانی اثرات یا جینیات
انسان کے جسم کے خلیوں میں ڈی این اے نامی ایک تیزاب پایا جاتا ہے جو آپ کے خلیوں کے حقوق و فرائض وضع کرتا ہے۔ اس تیزاب کا ایک حصہ جین کہلاتا ہے۔ انسانی جسم میں 20 سے 25 ہزار جین ہوتے ہیں جو آپ کی شکل، بال، قد، آنکھوں کا رنگ، چلنے کا انداز، مزاج، زہانت، شخصیت، غرض ہر چیز کی تشکیل کرتے ہیں۔ جینز ایک قسم کا ہدایت نامہ ہے جس کی روشنی میں انسانی بدن تیار ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ یہ جین آپ کو اپنے والدین سے ملتے ہیں اور انہی کی وجہ سے آپ کی شخصیت کے کئی رخ اپنے ماں باپ، دادادادی، نانا نانی وغیرہ سے ملتے ہیں۔ اس چیز کو خاندانی اثرات بھی کہتے ہیں۔
بعض خاندانوں میں، حتٰی کہ بعض وسیع علاقوں کے لوگوں میں ایسے جینز پائے جاتے ہی جن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی سرین بڑی ہوتی ہے اور عورتوں میں اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
خوراک
جب انسان اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک کھائے تو جسم فالتو خوراک کو چربی کی شکل میں مشکل وقت کیلیے محفوظ کر لیتا ہے۔ اور اگر یہ چربی بڑھتی جائے تو موٹاپے کی صورت میں نظر آنے لگتی ہے۔
مردوں اور عورتوں کے اجسام چربی کو محفوظ کرنے میں مختلف ہیں۔ جب مردوں میں چربی بڑھتی ہے تو اس کو پیٹ پر محفوظ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے توند نکل آتی ہے۔
لیکن جب عورتوں میں چربی بڑھنے لگتی ہے تو اسے سرین اور رانوں میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی سا وزن بڑھنے سے بھی عورتوں کی سرین باقی جسم سے پہلے موٹی ہونے لگتی ہے۔
ایک حد سے زیادہ بڑی اور موٹی سرین موٹاپے کی نشانی ہے جو کہ بذات خود ایک بیماری ہے۔ لیکن اگر ایک عورت کا جسم فربہ نہ ہو اور سرین متناسب طرح سے بڑی اور موٹی ہو تو مردوں کیلیے انتہائی جازبِ نظر ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ مرد جبلی طور پر ایسی سرین کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ اس خاتون کے بچے پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ایسی سرین اس خاتون کی اچھی صحت اور اچھی خوراک کی نشانی ہے جو آخر کار اس خاتون کے ہونے والے بچے کی صحت پر اچھے اثرات چھوڑیں گی۔
دبری جماع
میاں بیوی کے درمیان دبر کا جماع یا سرین کا جماع (فحش زبان میں گانڈ مارنا/مروانا ) تقریباً تمام معاشروں اور ادیان میں ایک انتہائی متنازعہ موزع ہے۔ اس سے قطع نظر، طبی طور پر یہ ایک انتہائی خطرناک فعل ہے۔
ایسے میاں بیوی جو جنسی بیماریوں سے پاک ہوں اور ایک دوسرے سے انتہائی پابندی کے ساتھ وفا دار رہیں ایک دوسرے کو جنسی بیماریاں منتقل نہیں کر سکتے لیکن بغیر مناسب احتیاط کے دبری جماع دونوں افراد کیلیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف مقعد (پاخانے کا سوراخ)، جو کہ انتہائی حساس جسمانی حصہ ہے، میں زخم آ سکتے ہیں بلکہ پاخانے میں موجود جراثیم مرد کے عضو تناسل کیلیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتے ہے۔ کثرت سے دبری جماع مقعد کے پٹھوں کو کمزور کر سکتا ہے جس سے پاخانہ بے قابو ہونے کی بیماری ہو سکتی ہے۔ مقعد کے پٹھے اپنی سختی سے مرد کے عضو تناسل میں شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
لیکن یہ یاد رکھیے کہ سرین کے بڑے یا موٹے ہونے کا دبری جماع سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ کی اہلیہ اپنی سرین میں وزن بڑھا رہی ہیں اور آپ نے ان سے کبھی دبری جماع نہیں کیا تو اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہ کسی اور مرد سے یہ فعل کر رہی ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے آپ اپنی فرِج میں سے جسم کو فربہ کرنے والی خوراکوں کو دور کریں اور کسی مناسب طبیب یا ماہر غذائیات سے رابطہ کریں۔
اور ہاں، خود بھی ورزش کریں اور اپنی اہلیہ کو بھی ورزش کی طرف مائل کریں۔ ورزش جسم کو خوبصورت اور چست بناتی ہے اور بالواسطہ طور پر ازدواجی محبت میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔